یہ کاغذی پھول جیسے چہرے...!
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے
مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا
انہیں کوئ کاش یہ بتا دے
مقام اونچا ہے سادگی کا
،انہیں بھلا زخم کی خبر کیا
،کہ تیر چلتا ہوا نہ دیکھا
،اداس آنکھوں میں آرزو کا
خون جلتا ہوا نہ دیکھا
اندھیرا چھایا ہے انکے آگے
حسین غفلت کی روشنی کا
،یہ صحن گلشن میں جب گئے ہیں
،بہار ہی لوٹ لے گئے ہیں
،جہاں گئے ہیں یہ تو دلوں کا
قرار ہی لوٹ لے گئے ہی
،کہ دل دکھانا ہے انکا شیوہ
،انہیں ہے احساس کب کسی کا
،میں جھوٹ کی جگمگاتی محفل میں
آج سچ بولنے لگا ہوں
،میں ہو کے مجبور اپنے گیتوں میں
زہر پھر گھولنے لگا ہوں
،یہ زہر شاید اڑا دے نشہ
غرور میں ڈوبی زندگی کا
مہدی حسن
Comments
Post a Comment