چھوڑئیے
اگر مگر ،ایسے ویسے کی تکرار چھوڑئیے آپکو جانا ہی ہے تو بے جھجھک جائیے بس آنکھ برسے یا دل دے پکار،چھوڑئیے آپکا مسئلہ نہیں مزید مت بگاڑئیے بس رہنے دیں کوئ اور راہ فرار چھوڑئیے جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پہ قبولیۓ بس امید وفا کے عوض امید بہار چھوڑئیے ہم منتظر تھے یا ہیں آپ یہ بھلائیے بس عہدو پیمان ،دل جان ،قول قرار چھوڑئیے جذباتوں میں کہا سنا معاف کیجیۓ بس بعد ازاں کیسے آتی ہے قضا چھوڑئیے اٹھا لی ہے کمان تو اب تیر چلائیے بس یہاں تک کس کا کتنا تھا کمال چھوڑئیے اب تعلق توڑ دیں مجبوریاں نبھائیے بس کل پرسوں کیا آج اور ابھی یار چھوڑئیے آپکو جانا ہی ہے تو بے جھجھک جائیے بس مونا نصیر