اور میں جسنے تجھے اپنا مسیحا سمجھا.......!!
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی تیرا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو میں نے مانا کہ وہ بیگانہ پیمان وفا کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں شاید اب لوٹ کے نا آۓ تیری محفل میں اور کوئ دکھ نہ رلاۓ تجھے تنہائی میں میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ چاہے امید امید کی شامیں ہوں کہ یادوں کے چراغ مستقل بعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیمان ہو کر تیرے پاس آۓ زمانے سے کنارہ کر لے تو کہ معصوم بھی ہے ،زود فراموش بھی ہے اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارہ کرلے اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤ جس سے پہلے بھی کئ عہد وفا ٹوٹے ہیں اسی دوراہے پہ کھڑا رہ جاؤں احمد فراز